مبینہ آڈیولیکس کی تحقیقات: جوڈیشل کمیشن نے کارروائی روک دی

0

مبینہ آڈیولیکس کی تحقیقات: جوڈیشل کمیشن نے کارروائی روک دی

مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر کارروائی روک دی ، اجلاس میں انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کاجوڈیشل آرڈر ہے اس لئے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔

تفصیلات کے مطابق مبینہ آڈیولیکس کی انکوائری کیلئے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں3 رکنی جوڈیشل کمیشن کا دوسرا اجلاس ہوا، چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ عامرفاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم افغان کمیشن کاحصہ ہیں۔

اجلاس کا آغاز میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب میراخیال ہے کوئی عدالتی حکم آیاہے، کیاآپ کےپاس عدالتی حکم کی کاپی ہے۔

اسلام آباد:اٹارنی جنرل نےکمیشن کوسپریم کورٹ کےحکم کی کاپی فراہم کردی ، اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سےقبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا، سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیاجاتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے نوٹس تھا یا ویسے بیٹھے تھے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھےزبانی بتایاگیاتھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کےبعدمجھے نوٹس جاری کیا گیا۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ تھوڑا بہت آئین میں بھی جاننا چاہتا ہوں، آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں اعتراضات والے نکات کی ہم وضاحت کر چکے، عابدزبیری اورشعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا انہیں آکر بتانا نہیں تھا کہ کل کیاآرڈرہوا۔

جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کیا شعیب شاہین نےکل یہ کہاکسی کی بھی آڈیوآئےاس جج کامعاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو، درجنوں ایسی شکایات آتی ہیں کیا ٹھیک کرکے سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟ آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کردیں، کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔

کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعدکےمطابق فریقین کوپیشگی نوٹسزجاری کرناہوتےہیں،کمیشن کوکسی بھی درخواست گزارنے نوٹس نہیں بھیجا،سپریم کورٹ کے رولز پر عملدرآمد لازم ہے، نوٹس کے حوالے سے بیان حلفی بھی عدالت میں دیا جاتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا،باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا،نہ عابد زبیری آئے نہ انکے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی۔

سربراہ کمیشن نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے عدالت کو آگاہ نہیں کیا209کی کارروائی کمیشن نہیں کر رہا؟ عدالت کو کل ہمارے حکم کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے کہا گیا کہ پرائیویسی ہمیشہ گھرکی ہوتی ہے، کسی کےگھر میں جھانکانہیں جاسکتا، سڑکوں پرجوسی سی ٹی وی کیمرےلگےہیں کیایہ بھی پرائیویسی کیخلاف ہیں۔

کمیشن نے اٹارنی جنرل کو قاضی فائز عیسیٰ کیس کافیصلہ پڑھنےکی ہدایت کی ، جس پر اٹارنی جنرل نے بتائے گئے پیراگراف پڑھ دئیے۔

انکوائری کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کر رہے تھے، ایک گواہ اس وقت موجود ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کوروسٹرم پربلالیا اور استفسار کیا آپ کا کیا نام ہے؟ ،عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ میرا نام عبدالقیوم ہے۔

سربراہ کمیشن کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو،ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی، ان کےدوسرےفریق نےکہاوہ میڈیکل چیک اپ کےلیےلاہورہیں، انہیں کہا جب لاہور آئیں توان کا بیان بھی لے لیں۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کوئی مجھے فون کرکے پیسوں کے عوض فیصلے کا کہے تو کیا یہ پرائیویسی ہوگی؟ عدالت کم از کم کمیشن کو نوٹس جاری کرکے موقف ہی سن لیتی، میں کسی کو کام کے بدلے رعایت دوں تو کیا یہ بھی پرائیویسی ہوگی؟

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اکثر لوگ فون پر سازشیں بھی کرتے ہیں تو جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ سڑکوں پر لگے ٹریفک کیمرے اوور اسپیڈ چیک کرنے کیلئے ہوتے ہیں،ٹریفک کیمرے لڑکے لڑکی کا نکاح نامہ پوچھنے کیلئے استعمال نہیں ہوسکتے، غیر قانونی ریکارڈنگ پر کارروائی ہو سکتی ہے۔

کمیشن کے سربراہ نے استفسار کیا کی کیا سڑک پر لگے کیمرے کی فوٹیج قتل کیس میں بھی استعمال نہیں ہوسکتی؟ دوران سماعت عدالت میں میرے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا،برطانیہ میں3پاؤنڈ فیس ادا کرکے کوئی بھی جائیداد کی معلومات لے سکتا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے کیس کے حقائق تو یکسر مختلف تھے، میری جائیداد کی معلومات لینے والے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا، میرے خلاف درخواست گزار کو کسی اور نے کھڑا کیا تھا، سابق حکمرانوں کی جائیدادوں کی تفصیل حاصل کرکے عدالت کو دی تھی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ شواہد کو قابل قبول ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہوتا ہے، ابھی تو شواہد کا مرحلہ کمیشن میں آیا ہی نہیں، ہو سکتا ہے قیوم صدیقی کو کمیشن کارروئی اور آڈیو پر اعتراض نہ ہو۔

انکوائری کمیشن کے سربراہ نے قیوم صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ کس سے بات کر رہے تھے؟ تو قیوم صدیقی نے بتایا کہ میری خواجہ طارق رحیم سے بات ہو رہی تھی۔

اجلاس میں آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن نے کارروائی روک دی اور آڈیولیکس کمیشن نے حکم نامہ لکھوانا شروع کیا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم آج کی کارروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے، میں گواہوں سے معذرت خواہ ہوں کہ وہ آج پیش ہوئے ہیں،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں زندگی میں بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے، جج کو 10لاکھ روپے دینے ہیں یہ کیسے پریولج کمیونیکیشن ہوگئی، دوسری سائیڈ والا 20لاکھ دے رہا ہو گا، ہمیں پٹیشنرز بتا رہے ہیں کہ حکم امتناع ہے آپ سن نہیں سکتے۔

سربراہ کمیشن نے کہا کہ وکلا کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے، ہم بعض کام خوشی سے ادا نہیں کرتے لیکن حلف کے تحت ان ٹاسکس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ہمیں اس اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں کیا پڑی تھی سب کرنے کو، ہمیں اس طرح کی دردناک تحقیقات کرنی پڑتی ہیں، اب ہمیں ٹاک شوز میں کہا جائے گا آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ کاجوڈیشل آرڈرہےاس لئےمزیدکام جاری نہیں رکھ سکتے، اپنی وکالت میں کبھی نہیں کہا جج صاحب میڈیا پر حکم پڑھ لیں، وہ میڈیا پر بیان بازی کریں ہمارا کو حق نہیں، ٹی وی شوز پر کہا جاتا ہے ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، کوڈ آف کنڈکٹ کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے۔

اجلاس میں سپریم کورٹ کے جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں قانون سکھانا ہے چلیں سکھا دیں، اگر کوئی کلائنٹ کہے جج کو 12لاکھ روپے دینا ہے تو کیا اس پر بھی استحقاق ہوگا، ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے۔

انھوں نے بتایا کہ کمیشن انکوائری ایکٹ کے تحت بنا، قانون کے تحت ہمیں ایک ذمہ داری سونپی گئی، ہو سکتا ہے کمیشن کو مشکل ذمہ داری دی گئی ہو، کیا قانون اور اپنے حلف کے تحت مشکل ٹاسک سے انکار کر سکتے ہیں ؟

کمیشن کے سربراہ کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ یہ ذمہ داری ہمارے لیے ذہنی تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے ، میں حیران ہو سپریم کورٹ کے فیصلے ہر ایک پر لازم ہے، الجھن کا شکار ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ پرلاگو نہیں ہوتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وکیل اپنا کوڈ آف کنڈیکٹ بھی پڑھیں، ایک وکیل موکل سے جج کے نام پر دس لاکھ مانگ لے، کیا ایسی گفتگو پر بھی پرائیویسی کے استحقاق کا اطلاق ہوگا، ہم بھی بطور وکیل پریکٹس کرتے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم حکم امتناع لیکر متعلقہ عدالت کو جاکر آگاہ کرتے تھے، وکیل خود اپنے کوڈ پر عمل نہیں کرتے، ہمیں قانون سیکھانے بیٹھ جاتے ہیں۔

انکوائری کمیشن سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم معذرت خواہ ہیں، سپریم کورٹ کاجوڈیشل آرڈرہےاس لیے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔

__________________________________________________________________

عمران خان کا اپنے گھر کے سرچ وارنٹ منسوخ کرانے کیلئے عدالت سے رجوع

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.