یوم شہادت میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر ذکر اس نشانِ حیدر کا جو پاکستان میں مدفون نہیں ۔

0

میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر
ذکر اس نشانِ حیدر کا جو پاکستان میں مدفون نہیں ۔

04 اپریل 1938
یوم پیدائش میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر

05 دسمبر 1971
یوم شہادت میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر

ہم کوئی شہادت نہیں بھولے
ہر شہید ہمارے سر کا تاج ہے

وہ جن کو فقط 16 دسمبر 1971 کو جنرل نیازی کا ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنا یاد رہتا ہے انہیں چاہیے کہ ہلی کے محاذ پہ میجر محمد اکرم شہید کی داستان شجاعت و بہادری کا ضرور مطالعہ کریں۔

یہ 5 دسمبر 1971 ہے ۔ تاریخ کے اوراق الٹیں تو چشمِ تصور میں نگاہیں مشرقی پاکستان کے ضلع بوگرا دیناج پور کے قصبہ ہلّی پہ رک جاتی ہیں . مشرقی پاکستان ، ماہِ دسمبر، جاڑا ۔۔ اور خاکی وردی میں ملبوس صرف 42 سپاہی ۔۔۔ !! جن کے پاس ہتھیار اور خوارک سب ختم ہوچکے تھے ۔ سردیاں عروج پر تھیں ۔ گرمی تھی تو رگوں میں دوڑتے خون کی گرمی یا پھر ان دھماکوں کی جو دشمن کے بھاری توپ خانے سے اٹھتے اور جب خاموش ہوتے تو بکھرے ہوٸے خون کی گرمی ان سرد لمحوں میں اپنی تپش کا اظہار کرتی ۔۔۔ اس آگ و خون کے معرکے میں پاک فوج کے ساتھ البدر، الشمس اور مجاہد فورس کے چند نوجوان بھی آج مشرقی پاک کی سرحد پہ سینہ سپر تھے ۔

ہلّی کے اسی محاذ پر 03 دسمبر 1971 یعنی دو دن قبل واٸرلیس سے اچانک ایک پیغام سناٸی دیتا ہے :
” کرنل شرما ! بریگیڈیٸر لچھمن سنگھ ہیٸر۔۔۔ کرنل شرما ! آج جنگ کو شروع ہوٸے 12 دن ہوچکے تمہارے بقول یہاں صرف ایک چھوٹی سی یونٹ ہے جو ہلّی ریلوے لاٸن پہ ہے لیکن یہاں ہمارے چار بریگیڈ آگے نہیں بڑھ رہے ”
واٸرلیس پہ انٹر سیپ ہوتی یہ آواز سنتے ہی پاک فوج کا کمپنی کمانڈر جس کا بھوک سے برا حال تھا نعرہ تکبیر بلند کرکے اپنی چھوٹی سی کمپنی کا مورال بلند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ” اللّہ کا شکر ہے کہ ہم نے دشمن کی پیشقدمی روکتے ہوٸے آگے بڑھنے سے روکا ہوا ہے ” اب وہ تمام سپاہی جن پر بھوک اور تکان کا غلبہ تھا اُن میں بھی جوشِ تازہ بیدار ہوتا ہے ۔۔ 22 نومبر سے باضابطہ جنگ شروع ہوٸے دو ہفتے گذر چکے تھے ۔ مشرقی پاکستان کا یہ شمالی حصّہ جہاں سے بھارت نے مکتی باہنی کے غنڈوں کے لیے اسلحہ اور افرادی قوت پہنچانی تھی تاحال رکا ہوا تھا ۔ یہاں میجر محمد اکرم کی قیادت میں اب صرف 42 سپاہی معہ رضاکار بچے تھے جو ارضِ وطن کا دفاع کرتے ہوٸے بھارت کی چار بریگیڈ کو للکار رہے تھے ۔ دوسری جانب دیناج پور ، بوگرا سیکٹر اور اس کے نواح میں البدر ، الشمس اور مجاہد فورس کے چند رضا کار بھی تھے جو آفت کی اس گھڑی میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تھامے مکتی باہنیوں سے نبرد آزما تھے لیکن اب ان کے پاس بھی ہتھیار ختم ہو رہے تھے ۔ خوراک کی قلت اس لیے بھی تھی کہ دریاٸے برہم پتر کی ندی کو غدار بنگالیوں نے پاکستان کا نام لینے والے اہلِ اردو بہاریوں ، محبِ وطن بنگالیوں اور اطراف میں بسنے والے چکمہ قبیلے کے بُدھوں کے خون سے سرخ کردیا تھا ۔ جبکہ اندرونِ شہر غداروں نے تمام دکانیں بند کروالی تھیں ۔ ہاں کوٸی مجاہد رضاکار وہاں کچھ روٹیاں اور مچھلی یا دال بھجوا دیتا تو بھجوادیتا ۔۔۔ لیکن آج دوپہر تک کوٸی بھی نہیں آیا تھا ۔ اس سیکٹر میں میجر ( ر) قاضی نور الزماں نے مکتی باہنی کے غنڈوں کی کمان سنبھالی ہوٸی تھی بلکہ وہی بھارتی فوج کو راستہ بھی دکھا رہا تھا ۔ یہ بنگال کا ” جدید میر جعفر” وہی قاضی نورالزماں تھا جو 1954 میں پاک فوج سے ریٹاٸرمنٹ لینے کے بعد مشرقی پاکستان صنعتی ترقیات کے شعبے میں گھس گیا اور خوب مال کماکر ڈھاکا اور چاٹگام میں اپنی کوٹھیاں بنواٸیں اور جب حکومتِ پاکستان نے حساب مانگا تو صدر ایوب کے خلاف ہوگیا ۔ یہ غدار اور دین فروش اب مکتی باہنی کا کرنل بنا ہوا تھا جس کے ہاتھوں بے شمار بے گناہ شہری شہید ہوچکے تھے ۔
میجر اکرم جو بوگرا سیکٹر میں موجود بریگیڈیٸر تجمل حسین ملک کی قیادت میں ہلی کے مقام پر تعینات تھے انھیں خبر ملتی ہے کہ پاک فوج کے جوان اور رضاکار جو یہاں خوراک اور دشمن سے چھینا ہتھیار لیکر آرہے تھے بُونا نامی علاقے کی طرف ان کی مکتی باہنی اور بھارت کی چھاتا بردار فوج سے جھڑپ ہوٸی جہاں صرف 25 اہلکاروں نے سینکڑوں سے مقابلہ کیا لیکن وہ سب کے سب شہید ہوچکے ہیں ۔۔۔ !! ہاں صرف شہید الحسن نامی ایک اہلکار کچھ سامان لیے پہنچا ہے اور اسی نے یہ اطلاع دی ہے ”
میجر اکرم یہ خبر سنتے ہی آسمان کی طرف سر اٹھاتے ہیں جیسے اللّہ سے غیبی مدد طلب کررہے ہوں ۔ پھر واپس اپنے سپاہیوں کو آکر صورتحال بتاکر کہتے ہیں
” یہ علاقہ جہاں ہم موجود ہیں مشرقی پاکستان کی شہہ رگ ہے ۔۔ مانا ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں ۔۔ ہماری اپنی بریگیڈ میں غداری کی وجہ سے اب سب کچھ ہاتھ سے جا چکا ہے لیکن ہم قسم کھاتے ہیں کہ مرجاٸیں گے لیکن اپنی زندگی میں دشمن کو یہاں نہ قدم رکھنے دیں گے نہ ریلوے لاٸن عبور کرنے دیں گے ”
میجر صاحب کی یہ بات گویا موت کے ہاتھ پر بیعت تھی ۔
انھوں نے ابھی بات ختم ہی کی تھی کہ انکے مورچوں پہ شدید گولہ باری ہونے لگی ۔ یہ علاقہ دشمن کی چار بریگیڈ کی زد میں تھا لیکن مجال ہے کہ مردانِ خاکی میں سے کوٸی بھی قدم پیچھے ہٹاتا ۔۔ اب گھمسان کا رن پڑا تو بھارتی کرنل شرما اور غدارِ وطن قاضی نورالزماں کی رپورٹ پر کہ یہاں صرف ایک ہی کمپنی ہے بھارتی طیاروں نے پمفلٹ پھینکے کہ ” پاک فوج ہتھیار ڈال دے ”
بھارتی سکھ کمانڈر بریگیڈیٸر لچھمن کسی بھی طرح یہ بات ماننے کو تیار نہ تھا کہ یہاں صرف ایک ہی کمپنی ہے اسی لیے حملے میں اور شدت کروادی ۔ بھارتی کرنل شرما بجرم بلی کی مالا جپتے ہوٸے آگے بڑھ رہا تھا جہاں اسے میدان تقریباً خالی نظر آرہا تھا لیکن وہ پاک فوج کی جرأت مندی کے باعث اپنے افسر کو یقین دلانے سے قاصر تھا کہ یہاں صرف چند مجاہد سپر ہیں ۔ بریگیڈیٸر لچھمن سنگھ کے حکم پہ وہ ایک ٹینک کا دستہ اور پیادہ فوج لیکر آگے بڑھا تو اچانک میجر اکرم نے اس کے ٹینک اسکواڈرن پر فاٸز کھلوادیے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار ٹینک نذرِ آتش ہو رہے تھے جبکہ اس کے ارد گرد بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے غنڈے جہنم میں جانے سے قبل دنیا میں آخری ہچکیاں لے رہے تھے جن میں کرنل شرما بھی تھا ۔۔!!
04 دسمبر1971 کو بی بی سی کا نماٸندہ کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ صرف ایک میجر اپنے چالیس کے قریب سپاہیوں کے ساتھ سیسہ پلاٸی دیوار بنا تھا ۔ اس نے عزم و استقامت کو بھی دیکھا تو میجر اکرم اور ان کے ساتھیوں کے گرد آلود چہروں پہ بھوک کے آثار بھی چشمِ نم کے ساتھ محفوظ کیے ۔ اس کی جیب میں کچھ مونگ پھلی کے دانے تھے وہ اس نے میجر صاحب کو دیے تو محاذ پر مصروف میجر اکرم نے ایک سپاہی کو بلوا کر اسے چھلواٸے اور ایک ایک دانہ سب کو دے دیا ۔۔۔ !!
بی بی سی جو اب برٹش براڈ کاسٹنگ کی بجاٸے برہمن براڈ کاسٹنگ سروس بنا ہوا تھا اس کا نماٸندہ یہ دیکھ کر ضبط برقرار نہیں رکھتا اور انھیں سیلیوٹ کرتا ہوا واپس آجاتا ہے ۔

04 دسمبر 1971 اور 05 دسمبر 1971 کی شب سے صبح تک بھارت آخری تابڑ توڑ حملہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں پاک فوج کے صرف بیالیس سپاہیوں نے بھارت کے پانچ سو چالیس جوانوں کو جہنم واصل کردیا تھا ۔ اسی لیے ریڈیو پاکستان سے یہ نغمہ گونج گونج کر ان مجاہدینِ پاک کو عقیدت سے سلام پیش کرتے ہوٸے کہہ رہا تھا
” غازی اُتّے کرم نبیﷺ دا رب دے نیارے نیں
ساڈے صرف بِتالی شیراں پنج سو چالی مارے نیں ”
یہ تھے وہ مجاہدینِ وطن جنھوں نے خون کے آخری قطرے تک مقابلہ کیا اور سب کے سب شہید ہوٸے ۔۔ لیکن ان کی زندگی میں مشرقی پاکستان کی یہ شہہ رگ بھارت اور بنگلہ دیش بنانے والوں کے ہاتھ نہ آٸی ۔۔ !!

آج پاکستان سے اندرونی اور لاشعوری بغض رکھنے والوں کی زبانیں 16 دسمبر 1971کا ذکر کرکے نہیں تھکتیں اور کچھ اپنی کوتاہ اور نادان سوچ کے ذریعے بھارتی موقف ہی کا ذکر کرتے ہوٸے ” سرینڈر کی کہانی” مزے لے لے کر سناتے ہیں لیکن وہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج اور البدر ، اشمس اور مقامی اردو بولنے والے بہاری مجاہدوں پر مشتمل مجاہد فورس کے کارناموں کو بھول جاتے ہیں ۔۔ ! بلکہ کچھ ناہنجار تو کچھ نادان حضرات اپنے سیاسی بغض کی بنیاد پر اِن مجاہدوں کی حب الوطنی اور غیرتِ دینی کو بھی نشانہ بناتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تر وہی سیاسی جماعت کے حامی ہیں جن کے رہنماٶں نے پاکستان توڑنے میں حصہ لیا یا پھر وہ اسی قسم کو مغلظات ہی بکتے نظر آتے ہیں ۔۔

بہرحال ہلّی سیکٹر کے اس معرکے کے عظیم ہیرو میجر محمد اکرم شہیدؒ کو نشانِ حیدرؓ سے نوازا گیا اور جب ان کے گھر خبر پہنچی تو ان کی والدہ عاٸشہ بی بی کھانا پکاتے ہوٸے ترانہ گنگنا رہی تھیں ” اے مردِ مجاہد جاگ ذعا اب وقتِ شہادت ہے آیا ۔۔ اللّہ اکبر، اللّہ اکبر ” جبکہ ہمشیرہ جس نے جنگِ ستمبر کے بعد بھاٸی اکرم سے پوچھا تھا کہ افسروں کو تمغے ملے آپ کو کیا ملا ؟ تو بھاٸی اکرم جو ظفر وال میں بطور کپتان تھا کہتا ہے ” اب جنگ ہوٸی تو ایسا کانامہ انجام دوں گا کہ دنیا یاد رکھے گی ” بھی بھاٸی کی شہادت کی خبر سن کر جہاں خوش تھی وہاں اپنے بھاٸی سے ہمیشہ کے لیے بچھڑنے کا درد بھی اس کی آنکھوں میں آنسوٶں کا سیلاب لا رہا تھا ۔ شہید کو دونوں بھاٸی حفاظِ قرآن تھے وہ بھی اپنے بھاٸی کے کارنامے پر خوشی و غمی کی کیفیت میں تھے ۔۔ شہید میجر اکرمؒ کو مشرقی پاکستان کے شہر دیناج پور میں مدفون کیا گیا جہاں آج بھی ان کی آرام گاہ مشرقی پاکستان میں قربانیوں کی یاد دلاتی ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے غدار مطیع الرحمٰن کی باقیات تو واپس کیں لیکن اس کے بدلے اپنے نشانِ حیدر میجر اکرم شہیدؒ کو نہ لایا جاسکا !!

میجر محمداکرم شہید ڈنگہ ضلع گجرات میں4 اپریل1938 کو اپنے ننھیال کے گھر پیدا ہوئے ۔ ان کا آبائی گاؤں نکہ کلاں جہلم سے بیس میل جنوب میں پنڈدادن خان روڈ پر واقع ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام ملک سخی محمد تھا۔ انھوں نے بھی فوج کی پنجاب رجمنٹ میں خدمات انجام دیں۔ وہ نیک سیرت اور نہایت ہی پرہیزگار انسان تھے میجر اکرم شہید کی والدہ ماجدہ کا نام عائشہ بی بی تھا۔ وہ بڑی باشعور اور دیندار خاتون تھیں جن کی وجہ سے ان کے دو بیٹوں افضل ملک اور حفیظ اللہ نے قرآن پاک حفظ کیا ۔ اکرم شہید کی آبیاری بھی اسی دینی ماحول میں ہوئی۔ انھوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاٶں سے حاصل کرنے اور میٹرک کرنے کے بعد وہ 16 اگست 1948 کو ملٹری کالج جہلم میں داخل ہوئے جہاں تعلیم کے ساتھ انھوں نے باکسنگ اور ہاکی میں بھی دلچسپی لی اور کالج کے بہترین کھلاڑی قرار پاٸے اکرم شہید جولائی1953 میں کالج سے فارغ ہو کر پنجاب رجمنٹ کی بوائز کمپنی میں بھرتی ہوئے جہاں انھیں تعلیم اور کھیلوں میں آگےہونے کے سبب پلاٹون کمانڈر اور بعد ازاں بوائز کمپنی کمانڈر بنا دیا گیا ۔
دو سال بعد وہ ایک باقاعدہ سپاہی کی حیثیت سے 8 پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوئے۔ یہاں انہوں نے ملٹری اسپیشل امتحان پاس کیا جو کمیشن میں جانے کے لئے ضروری تھا اور انہوں نے کمیشن کے لئے درخواست دی۔ ناکامی ہوئی‘ لیکن حوصلہ نہیں ہارا۔ دوبارہ کوشش کی اور بالآخر ان کی کوششیں رنگ لائیں۔1961ء میں انہیں 28 پی ایم اے لانگ کورس کے لئے چُن لیا گیا جس کے بعد 13 اکتوبر1963ء کو انھیں کمیشن ملا اور سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے ان کا تقرر 4 ایف ایف رجمنٹ میں ہوا جو اس وقت پشاور میں تعینات تھی۔ دو سال بعد انہیں کیپٹن بنا دیا گیا۔1965 کی جنگ میں انہوں نے ظفر وال سیکٹر میں دشمن سے بھرپور مقابلہ کیا ۔
7 جولائی1968 کو ان کا تبادلہ ایسٹ پاکستان رائفلز میں ہوگیا اور وہ مشرقی پاکستان چلے گئے۔23 مارچ 70 تک وہاں رہے اس عرصے میں انہیں مشرقی پاکستان کے بڑے حصے کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس قیام کے دوران انہوں نے بنگالی زبان بھی سیکھ لی۔
مشرقی پاکستان میں دو سال گزارنے کے بعد جب کیپٹن اکرم اپنی پلٹن 4 ایف ایف سیالکوٹ پہنچے تو سب نے مسرت اور گرم جوشی کا اظہار کیا۔ ستمبر1970 میں آپ کی یونٹ کوئٹہ پہنچی۔ وہاں جانے سے پہلے آپ نے جولائی اگست میں مری انٹیلی جینس کورس بھی کیا۔
31 مارچ71ء کو میجر اکرم یونٹ کے ساتھ ایک بار پھر مشرقی پاکستان پہنچے۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں ان کی کمپنی ہلی کے مقام پر صف آراء ہوئی۔ ہلی کے علاقے کی حیثیت ایک شہ رگ کی سی تھی۔مشرقی پاکستان کے شمالی علاقوں میں متعین ساری فوج کی سپلائی لائن یہاں سے گزرتی تھی۔ دشمن کا یہ منصوبہ تھا کہ ہلی پر قبضہ کرکے شمال میں متعین فوج کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے اور سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ ہلی پر قبضہ کرنے کے لئے دشمن کے 202ماؤنٹین بریگیڈ کو دو ماؤنٹین رجمنٹس‘ آرٹلری کی ایک لائٹ بیٹری اور ایک میڈیم رجمنٹ (ایک بیٹری کم) اور T-55ٹینکوں کے ایک سکواڈرن کی مدد حاصل تھی اس موقع پر میجر اکرم ن کامیاب جنگی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے بھرپور حملوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ انہوں نے نہ صرف دشمنوں کو پیش قدمی سے روکے رکھا بلکہ اس کے کئی ٹینک تباہ کئے اور سخت جانی نقصان بھی پہنچایا۔ 4 اور5 دسمبر1971ء کی رات کو دشمن نے چار بار میجر اکرم کی کمپنی پر حملہ کیا لیکن ہر بار دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ دشمن کا توپ خانہ اور ٹینک آگ اُگل رہے تھے۔ میجرمحمداکرم کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ دشمن کے ٹینکوں سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔ وہ ایک سپاہی کو ساتھ لے کر ایک40 ایم ایم راکٹ لانچر کے ساتھ دشمن کے ٹینکوں پر حملہ کرنے کے لئے آگے چلے گئے اور دشمن کے ٹینکوں کے عین سامنے سو گز کے فاصلے پر پوزیشن لی اور یکے بعد دیگر3 ٹینکوں کو تباہ کردیا۔ دشمن نے ایسا جوان کب دیکھا ہوگا جو سامنے آکر فائر کرے اور اپنی جان کی پروا بھی نہ کرے۔ وہ پندرہ دن تک مسلسل دشمن کے بار بار حملوں کو بہادری سے روکتے رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے دشمن پاک سرزمین کے ایک انچ پر بھی قابض نہ ہوسکا۔ آخر دشمن کے ایک ٹینک کی براؤننگ گن کا براہِ راست فائر اُن کی دائیں آنکھ کے قریب لگا اور آپ کو 5دسمبر1971 صبح دس بجے ہلی کے مقام پر شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ)

6 دسمبر1971ء کو یونٹ کے نائب خطیب نے ان کی نمازِ جنازہ بوگرہ میں پڑھائی اور انہیں ڈھاکہ روڈ پر بوگرہ شہر کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔میجر اکرم نے جس شاندار مزاحمت کا مظاہرہ کیا وہ مشکل ترین حدوں تک لڑنے کی ان کی قابل تقلید بہادری اور غیر متزلزل عزم و حوصلے کا ثبوت تھی۔ میجر اکرم اس دلیرانہ جنگ میں دوران کاروائی شہید ہوگئے اور اپنے پیچھے ایک بہا درانہ مشن کی تکمیل کیلئے اپنی اعلی ترین قربانی کی داستان چھوڑ گئے۔

۔ہلی کے محاذ پر میجر اکرم کی جرات و بہادری نے ایسا رنگ جمایا کہ دشمن بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا ، دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچانے پر میجر اکرم کو ’’ ہیرو آف ہلی ‘‘ کے نام سے شہرت ملی ، دشمن کے خلاف بہادری سے لڑتے ہوئے 5دسمبر 1971کو جام شہادت نوش کیا اور سابقہ مشرقی پاکستان اور موجود ہ بنگلہ دیش کے شہر بوگرہ میں سپرد خاک کئے گئے ۔میجراکرم شہید کے برادر حفیظ ملک اور ملک افضل نے بتایا کہ میجر اکرم شہید کی بے مثال جرات وبہادری کا اعتراف اس وقت کے بھارتی کمانڈر نے بھی کیا اور کہا کہ ’’اگر میجر اکرم جیسا جری افسر ہمارے پاس ہوتا تو اس کو سب سے بڑے اعزاز سے نوازا جاتا ۔ اسی بھارتی آرمی جنرل کی سفارش پر پاکستان آرمی کی جانب سے شہید کو سب سے بڑے فوجی اعزاز ’’نشان حیدر ‘‘ سے نوازا گیا

میجر محمد اکرام شہید کا نشان حیدر کا اعزاز 31 جنوری 1977ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ان کی والدہ مسماۃ احسان بی بی نے حاصل کیا۔

آپ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جہلم شہر میں ایک عظیم الشان یادگار تعمیر کی گئی ہے جب کہ تاریخ جہلم اور شہدائے جہلم از انجم سلطان شہباز میں ان کے مکمل سوانح موجود ہیں۔ نیز پروفیسر سعید راشد نے ان کے حوالے سے ایک کتاب شہید ہلی لکھی تھی۔۔ میجر اکرم شہید کی یادگار کی تعمیر کا کام 1996ء میں اُس وقت کے 23 ڈویژن کے جی-او-سی میجرجنرل محمد مشتاق اور ڈپٹی کمشنر جناب صفدر محمود نے اپنی نگرانی میں شروع کرایا اور اس کا باقاعدہ افتتاح 20 نومبر 1999ء کو اُس وقت کے جی-او-سی میجرجنرل تاج الحق نے کیا۔ یادگار کے متصل قائم لائبریری کے لیے سابق صدر جناب رفیق تارڑ صاحب نے خصوصی گرانٹ دی۔ میجر اکرم شہید کے لواحقین حکومتِ پاکستان اور پاک فوج کے شکر گزار ہیں، جنھوں نے شہید کی یادگار تعمیر کرائی۔ یہ یادگار آنے والی نوجوان نسل کے اندر جذبہ حُب الوطنی اور جذبۂ جاںنثاری پیدا کرنے کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی۔

سندھ حکومت نے سندھ کے تمام سرکاری اور نجی اسکول 15 روز کے لیے بند کردیں

ملک بھر میں ماسک لازمی قرار،  ماسک نہ پہننے پرجرمانے اور گرفتاریاں ہونگی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.