ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس ؛ قومی سلامتی کمیٹی برائے پارلیمان کے منٹس سپریم کورٹ میں پیش

0

ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں قومی سلامتی کمیٹی برائے پارلیمان کے منٹس سپریم کورٹ میں پیش کردیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ سماعت کر رہا ہے ، دوران سماعت عدالتی حکم پر قومی سلامتی کمیٹی برائے پارلیمان کے منٹس پیش کیے گئے ، اسپکر کے وکیل نعیم بخاری نے منٹس عدالت عظمیٰ میں پیش کیے ، جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ منٹس تو ہیں اس میں حاضری کی تفصیل کہا ہے؟کمیٹی اجلاس میں کون کون شریک رہا؟ اجلاس کے شرکاء کو کس نے بریفنگ دی؟ ریکارڈ کے مطابق نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں 11 افراد شریک تھے۔
اس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ کمیٹی میں شرکت کے لیے 29 لوگوں کو نوٹس دیئے گئے تھے۔

یہاں جسٹس مندو خیل نے پوچھا کیا اس کمیٹی کی میٹنگ میں وزیر خارجہ تھے؟ اس کے جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ جی وزیرخارجہ موجود تھے، شرکا کی لسٹ میں تیسرا نمبر ہے ، اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو بھی خط پر بریفنگ دی گئی۔ گزشتہ روز ہوئی سماعت کے دوران صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے آرٹیکل 184 تھری کے تحت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا ، اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا ، اس معاملے کاحل نئے الیکشن ہی ہیں ، آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے ، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے عدالت اس دیوارکوپھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

علی ظفر نے کہا کہ ہمارا آئین پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک حد قائم کرتاہے اگر اس حد کو پار کیا جائے تو تباہی ہوگی اور عوام متاثر ہوگی ، اس لیے پارلیمنٹ عدالت کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی اور عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو وہاں بھی مداخلت نہیں کی جاسکتی؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پروسیجر اور آئینی خلاف ورزی میں فرق کرنا پڑے گا ، ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کے خلاف عدالت سے رجوع پارلیمنٹ میں مداخلت ہے ، اسپیکر کو ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟ صدر مملکت کے وکیل نے کہا کیا غیرآئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا ، جسٹس مقبول باقر نے ریٹائرمنٹ پر اداروں میں توازن کی بات کی تھی ، باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے ، کسی بھی رکن اسمبلی کی اہلیت کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے تاہم پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت کی حد کی تشریح عدالت نے کرنی ہے۔
اس موقع پر جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟۔
قبل ازیں آج صبح ساڑھے 11 جب سماعت کا آغاز ہوا توجسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ایم کیو ایم، ٹی ایل پی ،جماعت اسلامی کیس میں فریق نہیں، راہ حق اور باپ پارٹی بھی پارلیمان کا حصہ ہیں مگرفریق نہیں، ازخودنوٹس کی ہمیشہ عدالت کے اندر اور باہر حمایت کی ہے، عدالت کا مشکور ہوں کہ قوم پر مہربانی کرتے ہوئے نوٹس لیا۔
بابر اعوان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کو کہا گیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی ،غیرآئینی ہے، دوسری طرف آرٹیکل 5کے تحت انہیں غدار کہاگیاہے ، درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 69 اور 95 کی تشریح کی استدعا کی ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کسی آرٹیکل کو علیحدہ نہیں دیکھ سکتے مگر آرٹیکل 95 کا خاص مقصد ہے۔ اس پرپی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، درخواست گزار چاہتے ہیں سلامتی کمیٹی کا حوالہ نظر انداز کیا جائے، اپوزیشن چاہتی ہےعدالت ان کے حق میں فوری مختصرحکم نامہ جاری کرے ، کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت ، آسٹریلیا یا انگلینڈ کے آئین سے کیا جاسکتا ہے؟ سیاسی جماعت جس کی مرکز ، صوبے ، کشمیر ، جی بی میں حکومت ہے ، یہ کہتے ہیں اس سیاسی جماعت کو نظر انداز کردیں۔
انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے وہ جمہوریت بچانے آئے ہیں ، میرا یقین ہے اس مقدمے میں کوئی نقطہ انداز نہیں ہوگا ، کیا پارلیمنٹ کی تمام کارروائی آرٹیکل 69 کی زد میں نہیں؟ حالیہ صورتحال سندھ ہاؤس اورلاہور کے ہوٹل کی وجہ سے پیدا ہوئی ، کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ لاگو نہیں ہوتا ، اراکین کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا ، اسپیکر کی رولنگ پر نعیم بخاری دلائل دیں گے۔
بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان میں ہرشخص پر لازم ہے کہ آئین وقانون کی تابعداری کرے ، ہر شخص آئین اور قانون کے تابع ہے ، شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفادار ہوں ، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی حقوق حاصل ہیں ، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے۔ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمے میں کہا آپ کیا یہ اسپیکرکی رولنگ کاپس منظر بیان کر رہے ہیں؟ جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ جی جناب یہ ہی پس منظر ہے ، اس پر چیف جسٹس نے کہا تو پھر آپ پر لازم ہے کہ اس کاحتمی نتیجہ بھی بتائیں ، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں ، کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر ایسی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے ، کیا اسپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جاکر رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں؟ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر کریں۔
اس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ آپ کو 3 راستے بتائے گئے ، اس پر چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمے میں کہا کہ راستے ہمیں نہ بتائیں راستے ہم خود نکل لیں گے ، آپ حقایق بیان کریں جب کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بھی بابر اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آفیشل معاملات زیربحث لانا ہے تو یہ سیاسی جماعت نہیں کہہ سکتی۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا وفاقی کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی تھی؟ اس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ کابینہ اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتاؤں گا ، کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ فارن آفس نے جو بریفنگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، اس پر چیف جسٹس نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال خط نہیں مانگ رہے اور ابھی ایسا کچھ نہیں ہے کہ ان کیمرا سماعت کریں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بابر اعوان سے کہا کہ یہ رولنگ سے پڑھ دیں اس میں جو کچھ ہے ، اس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے ، ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے ، ہم بھی اسے یہاں ڈسکس نہیں کرنا چاہتے آپ واقعات بتائیں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ پی ڈی ایم جماعتوں نے معاملہ پارلیمان میں لانے کا مطالبہ کیا، تمام سیاسی جماعتوں کو تحریری نوٹس دیے گئے ، تفصیل میں گیا توآپ کہیں گے یہ اسپیکر کے وکیل کو کہنے دیں ، اس لیے میں بات اشاروں میں بتا رہا ہوں ، فلاں فلاں مسئلے پر وہ ملک اس ملک کے پرائم منسٹر سے ناراض ہے ، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو پھر سب ٹھیک ہے ، تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھرڈیش ڈیش ڈیش ، 8 مارچ کوتحریک عدم اعتماد آجاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا۔
اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بابر اعوان نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی کا بائیکاٹ کیا ، کمیٹی اجلاس کی تفصیل نعیم بخاری پیش کریں گے ، مشیر قومی سلامتی نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دی تھی ، نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ نے سفارتی احتجاج کا فیصلہ کیا ، کونسل نے قرار دیا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی۔
اس کے بعد بابراعوان نے ترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی پیش کی ، جس میں ڈی جی ائی ایس پی آر نے کہا تھا کہ جو قومی سلامتی کمیٹی میں کہا گیا وہی ہمارامؤقف ہے اور قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کےاعلامیہ سے متفق ہیں۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفنگ پرکیا فیصلہ کیا؟ اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ مراسلے میں کہا گیا دوسرا ملک ہمارے وزیراعظم سے خوش نہیں ، تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا نتائج ہوں گے۔
اس پر ایک بار پھر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مناسب ہوگا خارجہ پالیسی پر بات کسی سیاسی جماعت کا وکیل نہ کرے ، جتنا رولنگ میں لکھا ہوا ہے صرف اتنا ہی پڑھا جائے تو مناسب ہوگا۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ باتیں اسپیکر کے وکیل کو کرنے دیں، سیکشن 5 کہتا ہے ہر آدمی کوریاست سے وفادار ہونا چاہیے اگر کوئی وفادار نہیں ہے تو ایکشن لیا گیا ، اس الزام کے تحت تحریک کیسے مسترد کی جاسکتی ہے؟ کوئی شبہ نہیں ہر شہری کو ریاست کا وفادار ہونا چاہیے ، جن پر الزام لگایا گیا ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟ جس پر بابراعون نے بتایا کہ ہماری اسمبلی بھی پارلیمانی کمیٹیز کے ذریعے چلائی جاتی ہے ، حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ، تحریک انصاف نے ارکان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ، پاکستان سب سے پہلے ہے ، اس لیے وزیر اعظم نے کابینہ میں احتیاط سے کام لیا اور میں بھی احتیاط برت رہا ہو۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بظاہر یہ کیس الزامات کا ہے غلط ہیں یا درست تفصیل میں نہیں جاتے ، آپ آرٹیکل 69 پر آتے ہیں تو ٹھیک ہے ، نہیں آتے تو آپ کی مرضی ہے ، ہمارے شارٹ آرڈر میں پیراگراف 4 اہم تھا ، آپ ہمیں کسی اور طرف لے کر جا رہے ہیں ، کیا معاملہ آرٹیکل 69 کا ہے کہ نہیں؟ ہم نے فارن آئین پرانحصار کرنا ہے کہ نہیں کرنا یہ ہم نے دیکھنا ہے ، ہم نے یہ کیس ختم کرنا ہے، اس کیس میں تاخیر ہمارے لئے مسئلہ بن رہا ہے ، عدالتی حکم میں اہم چیزڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت تھی ، ہم اسپیکر کی رولنگ اور آرٹیکل 69 پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ واقعاتی شواہد دے رہے ہیں کہ یہ ہوا تو یہ ہوگا ، ان واقعات کو انفرادی شخصیات سے کیسے لنک کریں گے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم کچھ نہیں جانتے ، ابھی تحقیق ہورہی ہے۔ اس کے جواب میں بابر اعوان نے کہا کہ وزیر اعظم جو جانتے ہیں ملک کے مفاد میں نہیں بول رہے ، وزیر اعظم تفتیشی نہیں ہیں تفتیش تو کوئی تفتیش کار ہی کرے گا۔

__________________________________________________________________

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.