وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 24-2023 کےلیے 14 ہزار 460 ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔

0

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مالی سال 24-2023 کےلیے 14 ہزار 460 ارب کا بجٹ پیش کردیا گیا۔
بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ، گریڈ 17 اور اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافہ ہوگا۔ پنشنرز کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ، مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کردی گئی۔ ای او بی آئی کی پنشن 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی۔ قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر خزانہ نے آغاز میں نواز شریف کی حکومت اور پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں شرح نمو 6.1 ایک فیصد جبکہ افراط زر 4 فیصد تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ ایشیا میں پہلے جبکہ دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔
انکا کہنا تھا کہ گلوبل واٹر ہاؤس کوپر کے مطابق پاکستان 2030 میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں سے ایک بننے جارہا تھا، روپیہ مستحکم اور زرمبادلہ زخائر تاریخ کی بلند ترین سطح 24 ارب ڈالر پر تھے۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آج کی خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت ہے۔ پی ٹی آئی کی غلط معاشی پالیسی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، زرمبادلہ تیزی سے گر رہے تھے۔
انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام کے حالات کو نازک صورتحال میں جان بوجھ کر خراب کیا۔
انہوں نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کا Public Debt تقریباً 25 ٹریلین روپے تھا۔ PTI کی معاشی بدانتظامی اور بلند ترین بجٹ خساروں کی وجہ سے یہ قرض مالی سال 22-2021 تک 49 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح پچھلے چار سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک یعنی 71 سال میں لیے گئے قرض کا 96 فیصد تھا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح Public Debt and Liabilities اسی عرصہ میں 100 فیصد سے بڑھ کر 30 ٹریلین سے 60 ٹریلین روپے پر پہنچ گیا۔ جون 2018 میں External Debt and Liabilities 95 ارب ڈالر تھیں۔ جون 2022 تک یہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کے مجموعی حجم میں اس قدر اضافے کی وجہ سے حکومت پاکستان کے Interest Expenditure میں بے پناہ اضافہ ہوا اور نتیجتاً پاکستان کی معیشت Debt Servicing کی وجہ سے بہت زیادہ Vulnerable ہوگئی۔
بجٹ ترجیحات:
انکا کہنا تھا کہ بجٹ تجاویز میں ہمارے ترجیحی Drivers of Growth مندرجہ ذیل ہیں:
زراعت:
زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اگلے مالی سال میں اس شعبے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی تجاویز ہیں:
زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اگلے مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کےلیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کےلیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
چاول کی پیداوار بڑھانے کیلئے سیڈر، رائس پلانٹر اور ڈرائیر کو بھی ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ کی تجویز ہے۔ بجٹ میں ایگرو انڈسٹری کو رعایتی قرض کی فراہمی کیلئے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
وزیراعظم کی یوتھ، بزنس اینڈ ایگریکلچر لون اسکیم کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا اور اس مقصد کیلئے اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کیلئے 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کیلئے اگلے سال کیلئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
آئی ٹی اور آئی ٹی فعال سروسز:
آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کیلئے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے، یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی۔ کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کےلیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی ایکسپورٹ پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
آئی ٹی اور آئی اینیبلڈ سروس پرووائڈرز کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے سافٹ ویئر اور ہارڈویئر بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔ ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔
چھوٹی صنعتیں:
بجٹ مالی سال 24-2023 میں تعمیرات، زراعت اور چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کےلیے ان شعبوں کو قرضے فراہم کرنے والے بینکوں کو ایسے قرضوں سے ہونے والی آمدن پر 39 فیصد کی بجائے 20 فیصد رعایتی ٹیکس کی سہولت اگلے 2 مالی سالوں میں یعنی 30 جون 2025 تک میسر ہو گی۔
وزیراعظم یوتھ لون پروگرام کے ذریعے چھوٹے کاروبار کو رعایتی قرضوں کی فراہمی کے لیے اس مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
ایس ایم ایز کے لیے علیحدہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔
صنعتی اور برآمدی شعبہ جات:
وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں ایکسپورٹ کونسل آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ یہ کونسل ہر سہ ماہی میں کم سے کم ایک میٹنگ منعقد کرے گی اور برآمدات سے متعلق فیصلے کرے گی۔
منرلز اور میٹلز کی برآمد کی ترویج کے لیے کسی بھی آن لائن مارکیٹ پلیس کے ذریعے کسی بھی مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی۔
ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن اسکیم کا اجراء کیا جا چکا ہے۔ اس کے تحت ایکسپورٹرز کی سہولیات میں اضافہ ہوگا۔
ٹیکسٹائل کی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے سنتھیٹک فلامنٹ یارن پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے اس طرح پیٹ اسکریپ پر کسٹم ڈیوٹی کو 20 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کیا جا رہا ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانی:
ترسیلات زر زرمبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے فارن ریمیٹینسس کے ذریعے غیرمنقولہ جائیداد (Immovable Property) خریدنے پر موجود 2 فیصد فائنل ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح ریمیٹینسس کارڈز کی کیٹیگری میں ایک نئے ’ڈائمنڈ کارڈ‘ کا اجراء کیا جا رہا ہے جو سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد ترسیلات بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا جس میں سہولیات دی جائیں گی۔
تعلیم:
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ ایگسپینڈیچر میں 65 ارب اور ڈیولپمنٹ ایگسپینڈیچر کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ (Pakistan Endowment Fund) کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا۔
خواتین کو بااختیار بنانا:
بجٹ میں خواتین کو بااختیار بنانے کےلیے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں اسکل ڈیولپمنٹ کاروبار کے لیے سستے قرضے اور کاروبار چلانے کے لیے تربیت جیسے منصوبے چلائے جائیں گے۔ کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے۔
کنسٹرکشن ایکٹیوٹی:
کنسٹرکشن ایکٹیوٹی سے چالیس سے زیادہ صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ بلڈرز اور عام لوگوں کو نئے گھر اور عمارتوں کی تعمیر پر مراعات دینے کے لیے آئندہ تین سال تک کنسٹرکشن اینٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس کی شرح میں 10 فیصد یا پچاس لاکھ روپے دونوں میں جو رقم کم ہو رعایت دی جائیگی اور وہ افراد جو اپنی ذاتی تعمیرات کروائیں انہیں تین سال تک دس فیصد ٹیکس کریڈٹ یا دس لاکھ روپے جو رقم بھی کم ہو رعایت دی جانے کی تجویز ہے۔
اس رعایت کا اطلاق یکم جولائی 2023 اور اس کے بعد سے شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔ اسی طرح ریئل اسٹیٹ انوسٹمنٹ ٹرسٹ (REIT) سے متعلقہ ٹیکس مراعات کو 30 جون 2024 تک توسیع دی جارہی ہے۔
پسماندہ طبقے کیلئے اقدامات:بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) غربت سے نمٹنے کیلئے حکومت پاکستان کا ایک فلیگ شپ پروگرام ہے مالی سال 24-2023 میں اس پرگرام کےلیے 450 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز دی ہے۔
بی آئی کے تحت 93 لاکھ خاندانوں کو 8,750 روپے فی سہ ماہی کے حساب سے بینظیر کفالت کیش ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی جس کے لیے 346 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حکومت نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال میں افراط زر کی مماثلت سے اس میں اضافہ بھی کرے گی۔
شعبہ توانائی:
کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مقامی کوئلہ استعمال کریں۔ انورٹر، سولر پینل اور بیٹریز کے خام مال کسٹم ڈیوٹٰ سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔
ماضی میں کئی بار ملک میں ان مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سپلائی چین میں تعطل آیا تھا ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کےلیے بونڈڈ بلک اسٹوریج پالیسی کا اجراء کیا جارہا ہے۔
اس پالیسی کے تحت غیرملکی سپلائر اپنے مالی وسائل سے بین الاقوامی مارکیٹ سے خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات پاکستان درآمد کرکے بونڈڈ بلک اسٹوریج میں ذخیرہ کرے گا بوقت ضرورت آئل مارکیٹنگ کمپنی ریفائنری کو غیرملکی سپلائر سے یہ مصنوعات خریدنے کی اجازت ہوگی۔
رواں مالی سال 23-2022 کے نظرثانی شدہ بحٹ کے اہم نکات:
رواں مالی سال میں ایف بی آر کے محاصل 7،200 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے جس میں صوبوں کا حصہ 4،129 ارب روپے ہوگا۔
وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو 1،618 ارب ہونے کی توقع ہے۔ وفاق کے محاصل 4،689 ارب روپے ہوں گے۔
کل اخراجات کا تخمنیہ 11،090 روپے ہوں گے۔ PSDP کی مد میں اخراجات 567 ارب روپے تک رہنے کا امکان ہے۔
دفاع پر کم وبیش 1،510 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
سول حکومت کے مجموعی اخراجات 553 ارب روپے پنشن پر 654 ارب روپے سبسڈیز کی مد میں 1،093 ارب روپے اور گرانٹس کی مد میں 1،090 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
آئندہ مالی سال 24-2023 کے اعداد و شمار:
آئندہ مالی سال کے لیے معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ افراط زر کی شرح اندازاً 21 فیصد تک ہوگی۔ بجٹ خسارہ 6.54 فیصد اور پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہوگا۔
اگلے مالی سال کے لیے برآمدات ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے۔
اگلے سال ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 9،200 ارب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 5،276 ارب روپے ہوگا۔ وفاقی نان ٹیکس محصولات 2،963 ارب روپے ہوں گے۔
وفاقی حکومت کی کل آمدن 6،887 ارب روپے ہوگی۔ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 14،460 ارب روپے ہے، جس میں سے انٹرسٹ پیمنٹ پر 7،303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
اگلے سال PSDP کے لیے 950 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے 200 ارب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 1،150 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔
ملکی دفاع کےلیے 1،804 ارب روپے سول انتظامیہ کے اخراجات کےلیے 714 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے۔
پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 1،074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔
آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بی آئی ایس پی، ایچ ای سی، ریلویز اور دیگر محکموں کےلیے 1،464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔
ورکنگ جرنلسٹ ہیلتھ انشورنس، آرٹسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جائے گا۔
اقلیتوں، اسپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کےلیے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔
پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ (پی ایس ڈی پی):
ترقیاتی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقیاتی بجٹ کے ذریعے معیشت کی استعداد کار میں اضافہ، بہتر انفراسٹرکچر کی فراہمی، افرادی ترقی، ریجنل ایکویٹی اور انویسٹمنٹ میں اضافے جیسے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔
اگلے مالی سال کیلئے وفاقی ترقیاتی پروگرام کےلیے 1،150 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1،559 ارب روپے ہے۔مالی سال 24-2023 کےلیے 80 فیصد تکمیل والے منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ دی جائے گی تاکہ جون 2024ء تک ان کی تکمیل کی جا سکے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور جدید ترین انفرااسٹرکچر کی فراہمی کےلیے پی ایس ڈی پی کا 52 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔
انفرااسٹرکچر کے شعبے میں ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کیلئے مجوزہ مختص رقم 267 ارب روپے (جو کل حجم کا 28 فیصد ہے)، واٹر سیکٹر کیلئے مختص رقم 100 ارب روپے (11 فیصد) ہے۔
توانائی کے شعبے کےلیے مجوزہ مختص رقم 89 ارب روپے (کل مختص رقم کا 9 فیصد ہے)۔ فزیکل پلاننگ اینڈ ہاؤسنگ (PP&H) کیلئے مجوزہ مختص رقم 43 ارب روپے یعنی کل مختص رقم کا 4 فیصد ہے۔
سماجی شعبے کی ترقی کےلیے 244 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں تعلیم بشمول اعلیٰ تعلیم کےلیے 82 ارب روپے، صحت کے شعبہ کےلیے 26 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
سائنس اور آئی ٹی کےلیے 34 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جبکہ پیداواری شعبوں (صنعت، معدنیات، زراعت) کےلیے 50 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔بلوچستان کے منصوبوں پر خصوصی توجہ تاکہ اس خطے میں دیگر علاقوں کی نسبت فرق کو ختم کیا جا سکے۔
توانائی:
بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کےلیے 107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے۔ پی ایس ڈی پی میں زیادہ تر توجہ ترسیلی نظام کی بہتری، قابلِ تجدید توانائی اور آبی وسائل کے استعمال میں اضافہ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
آبی وسائل:
پچھلے سال مہمند ڈیم کی تکمیل کےلیے 12 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کےلیے 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
اسی طرح 2160 میگاواٹ استعداد کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کےلیے ترجیحی بنیادوں پر تقریباً 59 ارب روپے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ دیامیر بھاشا ڈیم کےلیے 20 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے

دیگر اہم منصوبوں میں 969 میگاواٹ کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کےلیے 4 ارب 80 کروڑ روپے، تربیلا ہائیڈرو پاور کی استعداد میں اضافہ کےلیے 4 ارب 45 کروڑ روپے او وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور سٹیشن کی بحالی کےلیے 2 ارب 60 کروڑ روپے کی رقم فراہم کی جائے گی۔

کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے K-4 Greater Water سپلائی اسکیم کےلیے بھی 17 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔
ٹرانسپورٹ اور مواصلات:شاہراہوں اور دیگر مواصلاتی سہولتوں کےلیے ترقیاتی بجٹ میں 161 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
سوشل سیکٹر:پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) کے اہداف حاصل کرنے کےلیے آئندہ مالی سال میں 90 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔
ٹیکس پالیسی کے بنیادی اصول:
برآمدات میں اضافے کے لیے آئی ٹی اور آئی ٹی اینیبلڈ سروسز کی حوصلہ افزائی، زرمبالہ کے ذخائر بڑھانے کےلیے ترسیلات زر کا فروغ، اقتصادی ترقی میں اضافہ کیلئے مقامی صنعتوں کی سرپرستی، چھوٹی صنعتوں، تعمیرات اور زرعی شعبے کی حوصلہ افزائی، ملک میں یوتھ انٹرپرینیورشپ کا فروغ شامل ہے۔اسی طرح ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کےلیے معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن، صاحب ثروت افراد پر ٹیکس کا نفاذ، مہنگائی کی وجہ سے کم آمدن طبقے کیلئے ریلیف اور نان فائلرز کےلیے لین دین کی قیمت میں اضافہ شامل ہے۔
نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا:
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا اور حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوشش یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔ کاروبار میں آسانیاں لائی جائیں۔ صنعتوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔
انکم ٹیکس کے حوالے سے اقدامات:
سپلائیز، کانٹریکٹس اور سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد اضافہ، سیکشن 4C کے تحت سپر ٹیکس کے ریٹ اور اسکوپ کو ریشنلائز کرنا، کمرشل درآمدات پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد اضافہ، کمپنیوں کی طرف سے جاری کردہ بونس شیئرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد اور نان اے ٹی ایل افراد کی بینک سے 50 ہزار سے زائد کیش نکالنے پر 0.6 فیصد اضافہ کیا گیا۔
غیرملکی کرنسی کے آؤٹ فلو کی حوصلہ شکنی کی گئی اس لیے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ اور بینکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کے آؤٹ فلو کی حوصلہ شکنی کےلیے فائلر پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کی جا رہی ہے جبکہ نان فائلر پر یہ شرح 10 فیصد ہوگی۔
فیڈرل ایکسائز اور سیلز ٹیکس کے سلسلے میں ٹیکسٹائلز اور چمڑے کی مصنوعات کے پہلے درجے کے ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی موجودہ شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے۔ یہ ٹیکس معاشرے کے اس طبقہ پر عائد کیا جا رہا ہے جو ایسی قیمتی اشیاء خریدنے کا متحمل ہے۔ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔
تاجر برادری کے پرزور اصرار پر اور ریٹیل سیکٹر کو ریلیف دینے کیلئے پہلے درجے کے ریٹیلرز کی تعریف میں کورڈ ایریا کی شرط ختم کی جا رہی ہے۔
پرانی اور استعمال شدہ 1800 CC تک کی ایشیائی گاڑیوں کی درآمد پر 2005 میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی حد بندی کردی گئی تھی۔ اب 1300 CC سے اوپر کی گاڑیوں کے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی حد بندی ختم کی جا رہی ہے۔
ریلیف اقدامات:
سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کےلیے تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی صورت میں اضافہ کردیا گیا۔
سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کردیا گیا، سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 12 ہزار روپے کی جا رہی ہے۔
سرکاری ملازمین کی کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کردیا گیا۔ ای او بی آئی کی پنشن کو 8،500 سے بڑھا کر 10 ہزار روپےکرنے کی تجویز ہے۔
مقروض افراد کی بیواؤں کی امداد کےلیے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے پچھلے دو ادوار کے بجٹ 1999-2000ء اور 18-2017 میں اسکیم کا اجراء کیا گیا تھا۔مالی سال 24-2023 کے حوالے سے ایسی ہی سکیم ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیواؤں کےلیے متعارف کی جا رہی ہے۔ اس کے تحت ان بیواؤں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقیہ قرضہ جات حکومت پاکستان ادا کرے گی۔
سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز (سی ڈی ایم ایس) کے شہداء اکاؤنٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کردی گئی جبکہ بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کردی گئی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.