اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا آرڈیننس کالعدم قرار دے دیا

0

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس عدالت کے سامنے 22 ہزار میں سے صرف چار پانچ کیسز ہیں ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایک پبلک آفس ہولڈر نے 9 بجے اسلام آباد میں شکایت درج کرائی ، ایف آئی اے نے مقدمہ لاہور میں درج کرکے اسی وقت اسلام آباد میں چھاپے بھی مارے ، کیا یہ عدالت اس طرح کے اقدام کی اجازت دے سکتی ہے؟ آپ کے سیکھتے سیکھتے لوگوں کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔
یہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالتیں موجود ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اسی لئے ایف آئی اے نے ایس او پیز جمع کراکے عدالت سے فراڈ کیا ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے موقف اپنایا کہ سوشل میڈیا بہت خطرناک ٹُول ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا کو کیوں قصوروار ٹھہرائیں؟ بندوق سیلف ڈیفنس کیلئے ہوتی ہے لیکن کسی بندر کے ہاتھ دے دیں تو وہ خطرناک ہے ، کیا آئین یا قانون توڑنے کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ سوسائٹی میں عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائے جائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے ، اس عدالت کے سامنے جو کیسز ہیں ان میں ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے ، ان کیسز میں اختیارات کا غلط استعمال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں؟ ایف آئی اے اختیارات کو صحافیوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مٹھائی پھر ضائع ہو گی، وزیراعظم آج اہم اعلان کریں گے

حکومت کا مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کو پبلک کرنے پر غور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.