لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بحال کر دیا

0

لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کر دیا۔ عدالت نے پرویز الہٰی کی اسمبلی نہ توڑنےکی انڈر ٹیکنگ پر انہیں بحال کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب کابینہ کو بھی بحال کر دیا۔

لاہور ہائیکورٹ نے تمام فریقین کو 11 جنوری کیلئے نوٹس جاری کر دیے۔

لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہم اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے پابند نہیں کررہے۔

پرویز الہٰی نے انڈر ٹیکنگ میں عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ بحال کیے جانے پر وہ اسمبلی نہیں توڑیں گے۔

لاہور ہائی کورٹ میں وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت میں علی ظفر نے پرویز الہٰی کی انڈر ٹیکنگ پڑھ کر سنائی۔

انڈرٹیکنگ میں پرویز الہٰی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اگر وزارت اعلیٰ پر بحال کیا تو اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس نہیں دوں گا۔

اس سے قبل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ابھی انڈر ٹیکنگ دینے کے لیے وقت درکار ہے، عدالت وزیر اعلیٰ کو بحال کرکے خود اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ ایسے تو عدالت عبوری ریلیف نہیں دے سکے گی۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ ہم وزیراعلیٰ کے اسمبلی تحلیل کے آئینی اختیار پر کیسے روک لگا سکتے ہیں، ہم آپ کو ہدایات لینے کے لئے مزید ایک گھنٹے کا وقت دے دیتے ہیں۔پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز الہٰی الیکشن کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ بنے، انہیں 371 میں سے 186 ووٹ ملے، ان کے 10 ووٹ نکالے گئے لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ ان ہی کے حق میں دیا، آئین کے تحت 2 شقوں کے ذریعے وزیرِ اعلیٰ کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کو اسمبلی منتخب کرتی ہے، انہیں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے، انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جا سکتا ہے۔

دلائل دیتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر کو لگے کہ وزیرِ اعلیٰ اکثریت کھو چکے تو اجلاس بلانے کا کہہ سکتے ہیں، تحریکِ انصاف کہے کہ وہ اب وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ نہیں، تو کہا جا سکتا ہے کہ اکثریت نہیں رہی، مگر ایسے نہیں ہو سکتا کہ گورنر ایک دن اچانک کہیں کہ 2 گھنٹے میں اعتماد کا ووٹ لو۔

پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ رولز کے تحت مناسب وقت دیا جانا ضروری ہے، تمام ارکان کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے، کئی بار ارکان بیرونِ ملک ہوتے ہیں تو اسپیکر 10 دن کا وقت بھی دے سکتا ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسپیکر فوراً ووٹنگ کرا دیں؟ بظاہر اس طرح تو 10 دن کا وقت دیا جانا بھی ضروری نہیں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ سارا پراسیس گورنر اور اسپیکر کے مابین ہوتا ہے، تاریخ مقرر کرنا اسپیکر کا اختیار ہے، گورنر نے جو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیرِ اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، وزیرِ اعلیٰ اسمبلی کا سیشن بلانے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اجلاس بلانا اسپیکر کا اختیار ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ تمام اختیارات اسپیکر کے ہی ہیں۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ قانون میں لفظ سیکریٹری لکھا ہے تو اسپیکر کیسے آ رہا ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ رول 24 میں لکھا ہے کہ اسپیکر اجلاس بلاتا ہے اور ملتوی کرتا ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ بظاہر تو سوال مناسب ٹائم فریم کا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے تحت گورنر اجلاس بلانے کا کہہ سکتے ہیں، رولز کے تحت اسپیکر اجلاس کی تاریخ دیتا ہے، وزیرِ اعلیٰ نے صرف آ کر اعتماد کا ووٹ لینا ہے، وزیرِ اعلیٰ نے ہوا میں اعتماد کا ووٹ نہیں لینا ہوتا، گورنر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وزیرِ اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، جب اجلاس ہی نہیں تھا تو ووٹ کہاں سے لینا تھا، اجلاس بلانے پر گورنر اور اسپیکر کے درمیان اختلافات چل رہے ہیں، گورنر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وزیرِ اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کیا، گورنر نے اسمبلی کی مارچ تک تحلیل نہ کرنے کے بیان کا حوالہ دیا، گورنر نے پرویز الہٰی کے وہ بیان نہیں دیکھے جس میں عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کا بیان تھا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس میں کہا کہ یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ گورنر کون سا ٹی وی دیکھتے ہیں۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ابھی تو اعتماد کے ووٹ پر ووٹنگ ہی نہیں ہوئی، اگر آپ کے پاس اکثریت ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، ووٹنگ کی تاریخ دی جا سکتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہم تو ابھی عہدے سے ہٹائے جانے کے نوٹیفکیشن کی معطلی چاہتے ہیں، گورنر نے نتیجہ نکالا کہ پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کیا، گورنر نے کیسے یہ نتیجہ اخذ کیا، گورنر کا اقدام ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر کابینہ ہی نہیں رہی تو پھر مصطفیٰ ایمپیکس کیس کے تحت حکومت بھی نہیں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ چیف سیکریٹری کے ذریعے منتخب حکومت کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ اگر ہم ابھی وزیرِ اعلیٰ کو بحال کر دیں تو کیا آپ اسمبلی توڑ دیں گے؟ یہ معاملہ تو منظور وٹو کیس میں بھی آیا تھا، کیا آپ انڈر ٹیکنگ دے سکتے ہیں کہ اسمبلی نہیں ٹوٹے گی۔

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد اسمبلی نہیں ٹوٹ سکتی۔

عدالت نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد تو واپس ہو چکی ہے، اگر آپ اسمبلی توڑ دیں گے تو پھر یہ پٹیشن غیر مؤثر ہو جائے گی اور نیا بحران پیدا ہو گا، ہم 10 منٹ کا وقت دے رہے ہیں، آپ اپنے مؤکل سے ہدایات لے لیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر دیا۔

نیا بینچ سماعت کر رہا ہے

واضح رہے کہ پہلا بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے آج ہی نیا لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جو پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے نئے بینچ میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس مزمل اختر شبیر بھی شامل ہیں۔پہلا بینچ کیوں ٹوٹا؟
اس سے قبل وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

اس حوالے سے جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا تھا کہ ہم میں سے ایک جج اس بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہتے، جسٹس فاروق حیدر کافی کیسز میں پرویز الہٰی کے وکیل رہ چکے ہیں، ہم نیا بینچ تشکیل دینے کیلئے فائل چیف جسٹس کو بھجوا رہے ہیں، نیا بینچ تشکیل دینے کے بعد سماعت ہو گی۔

یاد رہے کہ آج ہی لاہور ہائی کورٹ میں وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے، گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے حکم اور نوٹیفکیشن کے خلاف پرویز الہٰی کی جانب سے پٹیشن دائر کی گئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے اس درخواست کو آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے درخواست پر سماعت کے لیے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جس میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس مزمل اختر شبیر بھی شامل تھے۔پرویز الہٰی کی درخواست میں کیا کہا گیا؟
پرویز الہٰی کی درخواست میں گورنر پنجاب کو بذریعہ پرنسپل سیکریٹری اور چیف سیکریٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔

تیار کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسپیکر کو وزیرِ اعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ کے لیے اجلاس بلانے کا کہا تھا۔گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کردیا

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس پہلے سے چل رہا ہے، اس لیے اسپیکر نے نیا اجلاس نہیں بلایا۔

درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ اسپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیرِ اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے۔

درخواست میں عدالتِ عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ اسپیکر کے کسی اقدام پر وزیرِ اعلیٰ کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی، عدالت گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دےگورنر پنجاب نے وزیرِ اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا
واضح رہے کہ گزشتہ شب گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔

گورنر پنجاب کے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی نے آئین کے آرٹیکل 130(7) کے تحت جاری آرڈر میں مقررہ دن اور وقت پر اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کیا اس لیے انہیں ڈی نوٹیفائی کیا جاتا ہے، جبکہ اس آرڈر کے تحت پنجا ب کابینہ بھی تحلیل کی جاتی ہے۔وزیراعلیٰ ڈی نوٹیفائی، پی ٹی آئی اور ق لیگ کا عدالت جانے کا فیصلہ

گورنر پنجاب کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یقین ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کو اراکینِ اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔

نوٹیفکیشن کے بعد پنجاب کابینہ ختم ہو گئی، تاہم نوٹیفکیشن کے مطابق نئے وزیرِ اعلیٰ کے آنے تک پرویز الہیٰ بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کام کرتے رہیں گے۔

ق لیگ اور PTI کا عدالت جانے کا فیصلہ
گورنر پنجاب کی جانب سے وزیرِ اعلیٰ پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ق کی قیادت نے ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں گورنر کے اقدام کے خلاف آج عدالت جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

__________________________________________________________________

اسلام آباد میں خودکش دھماکا، پولیس اہلکار شہید

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.