کوئی گنجائش نہیں ، جاوید چوہدری زیرو پوئنٹ

0

                                کوئی گنجائش نہیں

’وزیراعظم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنے وزراء کے رویے پر بھی حیران ہیں‘ کابینہ کا

کوئی وزیر اس ایشو پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں‘ وزیراعظم جس کو ہدایت کرتے ہیں وہ فوراً بیمار

ہو جاتا ہے‘ وزیر داخلہ شیخ رشید بھی قومی اسمبلی میں سوا منٹ تقریر کر کے بیمار ہو گئے اور باقی

ذمے داری نور الحق قادری کے کندھوں پر ڈال کر غائب ہو گئے۔

پارٹی کے ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی حکومت کی بجائے ٹی ایل پی کے حق میں بیان دیتے رہے‘ یہ

مظاہرین کو سحری اور افطار بھی کراتے رہے‘ حد تو یہ تھی کوئی وزیر 20 اپریل کو قومی اسمبلی

میں قرارداد پیش کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ یہ ذمے داری بھی بالآخر ڈاکٹر شیرافگن کے صاحب

زادے امجد نیازی نے اٹھائی اور وہ بھی پرائیویٹ ممبر کی شکل میں‘ وزیراعظم کو یہ رویہ سمجھ نہیں

آ رہا‘‘ وہ دکھی تھے‘ مجھے ان کی آنکھوں میں نمی بھی نظر آئی‘ میں نے انھیں مشورہ دیا ’’آپ بھی

احتیاط سے کام لیں‘ملکی حالات بہت خراب ہیں۔

لوگ حکومت سے ناراض ہیں‘ کئی لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں اور متعدد زخمی ہیں اور یہ اسلامی

ملک میں‘ رمضان میں ‘اس حکومت کے ہاتھوں ہوا جو اس ریاست کو ریاست مدینہ بنانا چاہتی تھی‘ یہ

بے انتہا حساس معاملہ ہے‘ ناموس رسالت پر کوئی مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا۔عالم اسلام اور فرانس

کے درمیان ایشو تھا مگر حکومت نے اپنی غلطیوں  سے اسے اپنا مسئلہ بنا لیا‘ اس نے ملک کی مذہبی

اکثریت کو چھیڑ دیا اور اب اس سے نکلنا آسان نہیں ہو گا‘  لہٰذا آپ احتیاط کریں‘‘۔

وہ ناراض ہو گئے اور  بولے ’’آپ مجھے بزدلی کا درس دے رہے ہیں‘‘ میں نے کہا ’’میں آپ کو بزدل

نہیں بنا رہا‘ میں آپ کو صرف حقائق بتا رہا ہوں‘ پارٹیاں اپنے کارکنوں‘ اپنے ارکان کو صرف استعمال

کرتی ہیں اور پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ حنیف عباسی کی

مثال لے لیں‘ اس نے پارٹی کی ہلہ شیری پر طاقتور حلقوں کے خلاف بات کی‘ ایفی ڈرین کا مقدمہ بنا‘ یہ

گرفتار ہوا‘ مقدمہ چلا‘ اس کی فیکٹری اور سارے اکاؤنٹس بند ہوئے‘ اسے سزا ہوئی اور یہ اور اس کا

پورا خاندان رُل گیا‘ وکیلوں کی فیسیں تک دوست پیسے اکٹھے کر کے دیتے تھے۔

یہ الیکشن تک نہ لڑ سکا‘ اللہ نے رحم کیا‘ یہ 13 اپریل 2019 کوضمانت پر باہر آگیا لیکن کیسز اب بھی

چل رہے ہیں‘ یہ ایک مسئلہ تھا‘ دوسرا مسئلہ 2012 میں شروع ہوا‘ اس نے پارٹی کے کہنے پر عمران

خان کے خاندان پر الزام لگایا‘ مقدمہ بنا اور پارٹی نے مڑ کر اسے یہ تک نہ پوچھا تم گزارہ کیسے کر

رہے ہو‘ کیا تمہیں وکیل کی ضرورت تو نہیں؟یہ جیسے تیسے مقدمہ لڑتا رہا لیکن پھر اسے پچاس لاکھ

روپے جرمانہ ہو گیا‘ اب اس کی فیکٹری اور اکاؤنٹس بند ہیں۔

یہ جرمانہ کہاں سے ادا کرے گا؟ ایک سینیٹر نے اس کی بھاری رقم دینی تھی‘ حنیف عباسی نے اپنی

پارٹی کے تمام سینئر لوگوں کی منت کی ‘آپ مہربانی کر کے مجھے میرے ہی پیسے لے دیں تاکہ میں

جرمانہ ادا کر سکوں لیکن کسی نے اس معاملے میں بھی اس کی مدد نہیں کی حتیٰ کہ عدالت نے دو دن

پہلے اسے گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا‘ پولیس اب اسے گرفتار کر کے عدالت میں

پیش کردے گی چناں چہ اس کو پارٹی سے وفاداری کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ سیاست سے بھی گیا‘ کاروبار

سے بھی محروم ہو گیا۔

اس کی جائیداد اور اکاؤنٹس بھی بند ہو گئے اور یہ آخر میں پارٹی سے بھی فارغ ہو گیا‘ یہ اگر سمجھ

دار ہوتا تو یہ پارٹی کی ہدایت کے باوجود ریڈ لائن کراس نہ کرتا‘ یہ دوسروں کی طرح قائد محترم‘ قائد

محترم کرتا رہتا‘ باہر نکل کر ایک آدھ نعرہ مارتا اور غائب ہو جاتا یا پھر اسپتال میں داخل ہو کر وقت

گزار لیتا‘ یہ بھی بچ جاتا اور اس کی سیاست بھی لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ اس کے انجام سے سیکھیں ‘‘۔

وہ ناراض ہو گئے اور چلے گئے‘ یہ بھی جذباتی قوم کے ایک جذباتی سیاست دان ہیں۔

یہ پوری حکومت جذبات‘ غیر منطقی توقعات اور ناتجربہ کاری کا مربہ ہے‘ آپ ان سے پوچھیں آپ کو

جب 2014 میں پتا تھا آپ اگلی بار ملک کے حکمران ہوں گے تو پھر شیخ رشید بار بار ٹی ایل پی کے

حق میں تقریریں کیوں کرتے رہے اور یہ ویڈیوز بنا کر کیوں ریلیز کرتے رہے‘ عمران خان نے بھی ٹی

ایل پی کی حمایت کیوں کی ؟ آپ چلیں ناتجربہ کار اور جذباتی تھے‘ ہم مان لیتے ہیں لیکن پھر 16نومبر

2020 کو تحریری معاہدہ اور اس پر وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور وزیر مذہبی امور نور الحق

قادری کو دستخط کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا آپ اس وقت یہ نہیں جانتے تھے آپ فرانسیسی سفیر

کو نہیں نکال سکیں گے۔

یہ نکلا تو پوری یورپین یونین ناراض ہو جائے گی اور پاکستان کی معیشت کو دھچکا لگے گا یا کیا

حکومت میں کوئی ایک بھی ایسا سمجھ دار شخص نہیں تھا جو وزیراعظم کو اکتوبر2020  میں صدر

میکرون کے بیان کے بعد یہ بتا سکتا ساری اسلامی دنیا غصے سے ابل رہی ہے‘ بارہ اسلامی ملکوں

نے فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے‘ ہم بھی اس رو میں فرانس سے اپنے سفیر کو واپس

بلا لیتے ہیں یوں احتجاج کرنے والے بھی مطمئن ہو جائیں گے اور ہم باقی اسلامی ممالک کی طرح چند

ماہ بعد فرانس سے اپنے تعلقات بھی نارمل کر لیں گے لیکن جب اسلامی دنیا فرنچ سفیر نکال رہی تھی

تو ہم اپنی ہی تنظیموں سے معاہدے کر رہے تھے اور آج جب پوری اسلامی دنیا میں امن ہے تو ہماری

سڑکیں بند ہیں۔

دوسرا نومبر میں حکومت نے ٹی ایل پی کوفریق بنا لیا اور اس کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ بھی کر لیاکہ

حکومت فرانس کے سفیر کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ کے ذریعے ملک بدر کرے گی‘ فروری

میں جب معاہدے پر عمل کا وقت آیا تو وزیر داخلہ شیخ رشید اور نور الحق قادری نے دوسرے معاہدے

کے ذریعے 20 اپریل تک مہلت لے لی گویا حکومت نے ٹی ایل پی کو دوسری مرتبہ بھی فریق تسلیم کر

لیا لیکن پھر 12اپریل کو اچانک سعد رضوی کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے بعد ملک میں جو کچھ ہوا

وہ پوری دنیا نے دیکھا‘ آپ حکومت کی مزید جلدبازی ملاحظہ کریں۔

اس نے 15اپریل کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت ٹی ایل پی پر پابندی بھی لگا دی‘ یہ سیاسی جماعت

اپنے تین ایم پی ایز کے ساتھ ایک ہی دن میں کالعدم ہو گئی اور پھر حکومت نے سعد رضوی سے جیل

میں مذاکرات بھی شروع کر دیے اور اس سے تیسرا معاہدہ بھی کر لیا‘ یہ کیا تماشا ہے؟ یہ لوگ اگر

دہشت گرد تھے تو پھر دو وفاقی وزراء نے ان سے نومبر میں معاہدہ کیوں کیا تھا؟ یہ معاہدہ اگر غلط تھا

تو پھر 11فروری کو ٹی ایل پی سے مہلت کیوں لی؟ اگر حکومت نے ٹی ایل پی سے مذاکرات ہی کرنے

تھے تو پھر اسے کالعدم کیوں قرار دیا اور یہ اگر کالعدم قرار دے دی گئی تھی تو پھر پارلیمنٹ میں

قرارداد پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی اور آپ اگر یہ سمجھتے ہیں یہ ایک قومی ایشو ہے۔

یہ پارلیمنٹ میں ڈسکس ہونا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس کا کوئی لانگ ٹرم حل نکالنا

چاہیے تو پھر وزیراعظم خود قومی اسمبلی کیوں نہیں گئے؟کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا آپ قومی

اسمبلی کو اہمیت نہیں دیتے ‘ آپ کمال دیکھیے‘ یہ خود قومی اسمبلی میں قدم رکھنا بھی مناسب نہیں

سمجھتے اور دوسری جماعتوں سے توقع کرتے ہیں یہ قومی اسمبلی میں حکومتی قرارداد پاس کر کے

حکومت بچا ئیں گی‘ یہ کہاں کی عقل مندی ہے لہٰذا ہمیں یہ ماننا ہو گا یہ حکومت بحران پیدا کرنے کی

چیمپیئن ہے‘ یہ لوگ ہر روز کوئی نہ کوئی چیز توڑ دیتے ہیں اور اگر کسی دن ناغہ ہو جائے تو یہ

وزارت عظمیٰ کی کرسی ہی الٹی رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن کوئی دن خالی نہیں جانے دیتے۔

یہ حالات ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ ہم سیدھاسادا مارشل لاء یا انارکی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور

اگر خدانخواستہ یہ ہو گیا تو پھر ہم ایک ایسی ٹنل میں داخل ہو جائیں گے جہاں سے ہم نکل نہیں سکیں

گے لہٰذا میں پھر عرض کر رہا ہوں ہوش کریں‘ جاگ جائیں‘ ہم تمام لائف لائینز بھگتا چکے ہیں‘ ہمارے

پاس اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔

RF By :https://www.express.pk/story/2169737/268/

جہموریت صرف سیکولر رہیے گی ، اوریا جان مقبول

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.