پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر علوی آج اپنا آخری خطاب کرینگے

0

 صدر مملکت عارف علوی آج (جمعرات) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پانچواں اور اپنے منصب کا آخری خطاب کرنے جارہے ہیں۔ 

وہ یہ خطاب ایک ایسے موقع پر کر رہے ہیں جب ایوان میں ان سے ہمدردیاں رکھنے اور دفاع کرنے والا پاکستان تحریک انصاف کا کوئی رکن موجود نہیں ہوگا۔

 اپنے خطاب میں انہیں دو حکومتوں کی کارکردگی کا احاطہ کرنا ہوگا۔

 پاکستان تحریک انصاف کے تقریباً چار سال اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے چھ ماہ کا۔ 

انہیں یہ ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل رہے گا کہ صدر آصف علی زرداری کے بعد وہ دوسرے صدر مملکت ہیں جنہوں نے مسلسل پانچ مرتبہ آئینی تقاضے کی تکمیل میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور اپنے خطاب کے دوران کم وبیش دونوں ہی صدور کو اپوزیشن کی جانب سے اس ہنگامہ آرائی اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تاہم جس شدت اور اشتعال کے احتجاج کا سامنا غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، پرویز مشرف اور دوسرے صدور کو کرنا پڑا ڈاکٹرعارف علوی ہنگامہ آرائی کی اس شدت سے محفوظ رہے۔ 

پارلیمانی سال کے آغاز پر جس طرح پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب ایک آئینی تقاضا ہے اسی طرح اس موقعہ پر اپوزیشن کی جانب سے خطاب کے دوران ہنگامہ آرائی ایک غیر پارلیمانی اور ناپسندیدہ روایت کی شکل بھی اختیار کر گئی ہے جس کا سامنا موجودہ صدر کو بھی کرنا پڑا گو کہ پارلیمنٹ کے تیسرے پارلیمانی سال پر پارلیمانی تاریخ کا یہ منفرد واقعہ بھی پیش آیا کہ صدر عارف علوی کے خطاب کے بعد بحث کئے بغیر ہی شکریہ کا ووٹ دے دیا گیا جس پر اعتراض اور احتجاج بھی کیا گیا پھر ان کے خطاب کے دوران قائد ایوان عمران خان کی ایوان میں موجودگی کی وجہ سے اپوزیشن کی تمام توجہ انہی پر مرکوز رہی اور اپوزیشن کے ارکان نے صدر علوی کو نظرانداز کرکے ان کے خلاف ہی احتجاج کیا اور انہیں ان ارکان کے سخت ریمارکس کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی کا آغاز صدر غلام اسحاق خان کے خطاب سے ہوا اس سے قبل جنرل محمد ضیاء الحق نے جب باوردی صدر کی حیثیت سے منصب سنبھالا تو وہ ملک کے واحد صدر تھے جو مشترکہ اجلاس کے دوران اپنی وردی کی طاقت کے زور پر اپوزیشن سے اپنے دونوں مناصب کے وقار کو محفوظ رکھ سکے۔ پھر جب جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کے بعد سینٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے صدر کا منصب سنبھالا تو الیکشن میں منتخب ہونے والی وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا جس کے بعد جب وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تو بینظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ایوان میں موجود تھیں اور جیسے ہی غلام اسحاق خان کا خطاب شروع ہوا بینظیر نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر ’’گو بابا گو‘‘ کا نعرہ لگا کر ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کیا جس کے بعد جیالوں نے ملکر گو بابا گو کے نعروں اور ڈیسک کی تھاپ پر رقص کے انداز میں احتجاج شروع کر دیا یہ آغاز تھا پھر انہیں میاں نواز شریف اور مسلم لیگی ارکان کی جانب سے بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

__________________________________________________________________

ملک میں آج سونے کی فی تولہ قیمت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ 

صدر علوی کی کوششیں عمران خان کا لانگ مارچ منسوخ کرا سکیں گی؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.