ازخود نوٹس: کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے، چیف جسٹس

0

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روک دیا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بینچ نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر ازخود نوٹس کی مختصر سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں پر امن رہیں، کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھا یا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کو ازخود نوٹس میں فریق بنانے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججز تمام صورتحال سے آگاہ ہیں، مزید سماعت کل کی جائے گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رمضان شریف ہے، سماعت کو لٹکانا نہیں چاہتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ڈپٹی اسپیکر کے اقدامات کا جائزہ لے گی۔

عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کو ازخود نوٹس میں فریق بنانے کا حکم دیا۔ 

عدالت نے مختصر حکم لکھوایا جبکہ سیکرٹری دفاع کو ملک میں امن و امان سے متعلق اقدامات پر آگاہ کرنے کا نوٹس جاری کردیا۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ از خود نوٹس میں صدر مملکت کو پارٹی بنا دیتے ہیں، یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کل 63 اے صدارتی ریفرنس کی مختصر سماعت کے بعد سماعت کریں گے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں لطیف کھوسہ نے تین اپریل کے اقدامات واپس کرنے کی درخواست دائر کی۔

سپریم کورٹ نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روکتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

عدالت میں پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، جہاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ارکان اسمبلی کا احتجاج رجسٹرڈ ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال سپریم کورٹ پہنچے اور موجودہ سیاسی صورتحال کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس کے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون سپریم کورٹ پہنچے۔

ذرائع کا بتانا تھا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوگا، اٹارنی جنرل

ادھر سپریم کورٹ میں موجود اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ 

ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل نے سابق وزیر قانون فواد چوہدری اور بابر اعوان سے قانونی امور پر مشاورت کی۔

پیپلزپارٹی کے وکیل اسپیکر رولنگ کے خلاف درخواست دائر کرنے سپریم کورٹ پہنچے۔

__________________________________________________________________

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.