صدر علوی کی کوششیں عمران خان کا لانگ مارچ منسوخ کرا سکیں گی؟

0

 صدر عارف علوی کی عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان صلح کرانے کی کوششیں ناکام ہونے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پیر کو بنی گالا میں حتمی حکمت عملی کے طور پر لانگ مارچ کے خیال پر بحث و مباحثہ ہوا۔ 

عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں شیخ رشید، مونس الٰہی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور فیصل واوڈا نے شرکت کی اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی تاریخ کے اعلان پر غور کیا۔ اگرچہ اجلاس میں مذاکرات کیلئے پس پردہ کوششوں کی حمایت پر اتفاق کیا گیا لیکن یہ فیصلہ کیا گیا کہ 12؍ ربیع الاول کے بعد تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔عمران خان نے لانگ مارچ کا وقت کسی کو نہیں بتایا۔ 

اجلاس میں جیل بھرو تحریک پر بھی بات ہوئی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں یہ غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ مذاکرات کی کوششوں کا فائدہ نہیں ہو رہا۔ پی ٹی آئی میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مستقل کشیدگی کو دیکھتے ہوئے صدر سمیت کسی کے پاس مزید آپشن نہیں رہ گئے کہ وہ دونوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرا سکے۔ مزید برآں، عمران خان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ یہ امید پوری ہونا بھی مشکل ہے کہ سیاسی طور پر ان کی مدد کرکے موجودہ حکومت کو ہٹایا جائے اور نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔ 

صدر علوی کے علاوہ، پرویز خٹک اور فیصل واوڈا دفاعی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ پر مستقل حملوں کی وجہ سے ان دونوں کیلئے بھی کچھ زیادہ کرنا مشکل ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ اندرونی ذرائع اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی قیادت فرسٹریشن کی وجہ سے لانگ مارچ کی طرف بڑھ رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر اس کے مستقل دبائو ڈالنے کے باوجود اسے مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے۔ 

دوسری جانب، نون لیگ کی زیر قیادت حکمران اتحاد عمران خان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت جانے کے بعد پی ٹی آئی ڈٹ گئی تھی کہ موجودہ حکومت سے کوئی بات نہیں ہوگی اور صرف انتخابات ہونگے۔ لیکن، بعد میں اس نے اپنا موقف نرم کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی وسیع پیمانے پر مذاکرات میں شرکت کرے گی بشرطیہ کہ حکومت جلد الیکشن کے آپشن پر بات کرے۔ 

جارحانہ عوامی رائے کے برعکس، پی ٹی آئی اب بھی مذاکرات کیلئے تیار ہے تاکہ آئندہ انتخابات کی تاریخ، انتخابی اصلاحات، نگراں حکومت اور معیشت جیسے معاملات پر بات کی جا سکے۔ اگر وزیراعظم شہباز شریف براہِ راست عمران خان کو مذاکرات کی دعوت دیں تو شاید پی ٹی آئی لانگ مارچ یا اسلام آباد کے محاصرے کی طرف نہ جائے لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر حکمران اتھاد اور پی ٹی آئی کے درمیان اختلافات گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ 

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ ہم جلد الیکشن چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ جب ہم مذاکرات کی طرف جائیں گے تو الیکشن ہماری خواہش کے مطابق منعقد نہیں ہوں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ آئندہ سال مارچ اور جون کے درمیان ہو سکتا ہے۔ تاہم، حکمران اتحاد کا اصرار ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل کرے گی اور آئندہ الیکشن آئندہ سال دیر سے ہوں گے۔

__________________________________________________________________

رمیز راجہ نے قومی ٹیم کے کھیلنے کے انداز کی حمایت کر دی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.