ظفراللہ جمالی نے کس مذہبی تنازے پر قومی اسمبلی کی سیٹ کو لات ماری

0

ظفراللہ جمالی نے کون سے مزہبی تنازے پر قومی اسمبلی کی سیٹ کو لات ماری

سچے عاشق رسول سابقہ وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی گزشتہ روز 2 دسمبر 2020 کو انتقال کر گئے

جب اسمبلی میں ختم نبوت کے خلاف سازش ہونا شروع ہوئی تو میرظفراللہ جمالی نے کرسی کو لات مار دی

اور میر ظفراللہ خان جمالی نے کہا کہ

ختم نبوت کیخلاف سازش پراپنا سامان سمیٹ کرگھرواپس آچکاہوں کیونکہ میں 37 سال سےاللہ کےرسولﷺکے روضہ پرجارہا ہوں اگر دوبارہ اس اسمبلی میں گیا تو روضہ رسول پرکیامنہ دیکھاونگا؟”
یہ تاریخی الفاظ ادا کرنے والابوڑھا عاشق رسول میر ظفراللہ جمالی اب ہم میں نہیں رہے

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

میر ظفر اللہ جمالی کی زندگی پر ایک نظر

ظفراللہ جمالی یکم جنوری 1994 کو بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم روجھان جمالی سے حاصل کی سینٹ لارنس کالج اور ایچ سن کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے1965 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی

ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم تھے۔
ظفر اللہ جمالی انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر عبور رکھتےتھے۔
جمالی کی پہچان ایک سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دان کی رہی۔
وہ روایات کے پابند تھے جن میں دوستی اور تعلقات نبھانا اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے۔

“خاندانی پس منظر”
جمالی خاندان قیام پاکستان سے ہی ملکی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔

ظفر اللہ جمالی کے تایا جعفر خان جمالی قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔
جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں تو ظفراللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔
جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔
ان کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد جمالی (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے۔
میر عبد الرحمٰن جمالی اور میر فائق جمالی صوبائی کابینہ میں رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سن اٹھاسی کے بعد سے ان کے آبائی گاؤں روجھان جمالی سے تین وزراء اعلیٰ بلوچستان منتخب ہو چکے ہیں، جن میں تاج محمد کے علاوہ ظفراللہ کے بھتیجے جان جمالی بھی شامل ہیں۔

میر ظفراللہ کے والد میر شاہنواز جمالی پرانے مسلم لیگی رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھائی تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔

ظفراللہ کی شادی خاندان میں ہی ہوئی جس سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
دو بیٹے، شاہنواز اور جاوید، پاک فوج میں افسر ہیں جبکہ تیسرے، فریداللہ باپ کی طرح سیاست میں ہیں اور سن ستانوے میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔
ان کے قبیلے کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کے علاوہ صوبہ سندھ میں بھی آباد ہے۔ یوں ان کا سیاسی اور قبائلی اثر و رسوخ دو صوبوں پر محیط ہے۔

“عملی سیاست”
ذو الفقار علی بھٹو، میر جعفر خان جمالی کو اپنا سیاسی مرشد مانا کرتے تھے۔
17 اپریل 1967ء کو جعفر خان جمالی کی وفات کے موقع پر جب ذو الفقار علی بھٹو روجھان جمالی گئے تو ظفر اللہ جمالی کے والد شاہ نواز جمالی سے انہوں نے کہا کہ اس گھرانے سے سیاست کے لیے مجھے ایک فرد دے دیجیئے، جس کے جواب میں شاہ نواز جمالی نے (ظفر اللہ جمالی) کا ہاتھ ذو الفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔
یہی سے ظفر اللہ خان جمالی نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رکھا۔

1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔
1982ء میں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے۔
1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔
1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔
29ء مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انہیں وزیر ریلوے لگادیا۔
1986ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔
قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بنے۔
1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔
اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا۔
اس کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔
1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ 1993ء میں کامیاب ہو گئے۔

نو9 نومبر 1996 تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ رہے۔ 1997 میں سینٹ کے ارکان منتخب کیے گئے۔

 مسلم لیگ ق میں شمولیت
1999ء نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔
یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی۔
مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود وہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے۔

“وزارتِ عظمٰی “
انتخابات 2002 اکتوبر کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیا۔
وزیر اعظم کا انتخاب کئی سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا۔
یہ مرحلہ اس وقت روبہ عمل ہوا جب پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا الگ ہو کر مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر آمادہ ہوا۔

جمالی دور میں پرویز مشرف کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان جاری رہنے والی رسہ کشی ایک سال کے بعد دسمبر 2003ء میں متحدہ مجلس عمل کی مدد سے ستارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد ختم ہوئی۔
متحدہ مجلس عمل اور پرویز مشرف کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ ستارہویں ترمیم منظور کرانے کے بعد پرویز مشرف 31 دسمبر 2004ء تک وردی اتارلیں گے۔
(لیکن پرویز مشرف نے یہ وعدہ وفا نہ کیا۔)
اپنے وزارت عظمیٰ میں ظفر اللہ جمالی نے کئی وسط ایشیائی، خلیجی ممالک سمیت امریکا کا بھی دورہ کیا۔
بش سینئر سے 90ء کی دہائی میں تعلق قائم تھا۔
پرانے تعلق کو استعمال کرتے ہوئے دورہ امریکا کے دوران صدر بش سے تعلق استوار کیا۔

‘ڈاکٹر عبد القدیر خان کی امریکا منتقلی کے لیے کاغذات پر دستخط سے انکار کیا۔
جمالی اپنے دور اقتدار میں کوئی بڑا عوامی ریلیف دینے میں ناکم رہے، تاہم ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ انہیں کے دور میں کوئی بڑا بحران نہیں رہا، متحدہ مجلس عمل سے مذاکرات کو چلائے رکھنا بھی ان کی بڑی کامیابی سمجھی گئی۔

“جمالی کابینہ”
وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میں خورشید قصوری، فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، شیخ رشید احمد، عبدالستار لالیکا، ہمایوں اختر، کنور خالد یونس، نواز شکور، غوث بخش مہر، لیاقت جتوئی، اولیس لغاری، سمیر املک اور سردار یار محمد رند شامل تھے۔

“استعفٰی”
وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔

ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ء کو وزیر اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔

“استعفے کی وجوہات”
وزیر اعظم جمالی کے استعفٰے کی وجہ واضح طور پر بیان تو نہیں کی گئی تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ سب چوہدری شجاعت حسین اور ظفر اللہ جمالی کے درمیان اختلافات کا نتیجہ تھا جو اس کے بعد ملک کے عبوری وزیر اعظم بنے۔
(ظفر اللہ خان جمالی نے اپنے کئی ٹی وی انٹرویو میں اپنے استعفے کی وجہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم اور گستاخ رسول کی سزا میں نرمی کے حوالے سے بتائی ہے۔)
تجزیہ کاروں کے مطابق جنرل مشرف نے میر ظفر اللہ خان جمالی سے وعدہ لیا تھا کہ وہ تمام ایگزیکٹیو تقرریاں ان کی منظوری اور مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے مشاورت سے کرینگے تاکہ گڈ گورننس کا مقصد پورا ہوتا رہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور میر ظفراللہ جمالی نے چند وفاقی سیکرٹریوں کے تبادلے اپنے طور پر کر دیے جس سے ابتدا ہی میں بد اعتمادی کی فضاء پیدا ہو گئی۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعظم جمالی کے لیے اقتدار پہلے دن سے ہی کانٹوں کی سیج ثابت نہیں ہوا۔
ان کی جماعت کے ارکان پارلیمنٹ میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا جن پر چوہدری برادران کی گرفت خاصی مضبوط تھی۔
مئی 2004ء تک جمالی اور شجاعت اختلافات شدت اختیار کر گئے اور اسمبلی ٹوٹنے اور وسط مدتی انتخابات کی باتیں ہونے لگیں۔

‘جنرل پرویز مشرف سے انڈر سٹینڈنگ میں دوسرا فیصلہ یہ شامل تھا کہ پارٹی بالادست ہوگی یعنی وزیر اعظم اور حکومت پارٹی فیصلوں پر عمل درآمد کرے گی۔
اس اصول کا اعلان چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس عام میں کیا تھا۔

ظفراللہ جمالی نے بھی یہ اعلان کیا کہ یہ اصول کہ حکومت پارٹی کو نہیں پارٹی حکومت کو چلائے گی ہم نے مل بیٹھ کر طے کیا ہے اور وہ اس اصول پر کاربند رہیں گے۔
میر ظفر اللہ جمالی اپنے اس اعلان پر قائم نہ رہ سکے۔
اختلاف کی ایک بڑی وجہ وزیر اعظم جمالی کی کابینہ میں چوہدری شجاعت کی توسیع کی خواہش پر عملدرآمد کرنے سے گریز بھی تھا۔
صدر مشرف کے وزیر اعظم جمالی سے اختلاف کا ایک اہم واقعہ اپریل 2004ء میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے بل کی منظوری کے وقت پیش آیا۔
نیشنل سیکیورٹی کونسل کا مسودہ قانون وزیر اعظم جمالی نے کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دیا اور کابینہ میں کہا کہ ’ہم پر ذمہ داری آگئی ہے اور ہم اسے اس طرح منظور کریں کہ پارلیمینٹ کا وقار قائم رہے‘ جمالی کی کوششوں سے نیشنل سکیورٹی کونسل کا اصلی مسودہ قانون جسے صدر مشرف کے ساتھیوں نے تیار کیا تھا اس میں تبدیلی کی گئی۔
ا س کے دائرہ کار میں سے جمہوریت، اچھا نظم ونسق اور بین الاصوبائی امور پر مشاورت کو نکال دیا گیا اور ان کی جگہ کرائسس مینجمینٹ (ہنگامی حالات سے نپٹنے) کے الفاظ شامل کیے گئے۔
اپریل 2004ء میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا بل منظور ہوتے ہی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ارکان وفاقی وزراء فیصل صالح حیات اور راؤ سکندر اقبال نے کھلے عام صدر مشرف سے کہا کہ وہ وردی نہ اتاریں اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔
بظاہر نرم مزاج جمالی اندر سے قدرے سخت سیاست دان ثابت ہوئے-
انہوں نے آخر تک صدر پرویز مشرف کی وردی کے معاملے پر حمایت کرنے سے انکار کر دیا اور بطور وزیر اعظم نازک سیاسی معاملات پر اپنی آزاد رائے پر اصرار کیا۔

‘سرکاری پارٹی اور اس کے حلیفوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کو دیکھتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے دھمکی دی کہ وہ پورا نظام لپیٹ دیں گے (ستارہویں ترمیم کے ذریعے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس مل گیا۔)
اس پر ارکان پارلیمنٹ خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے صدر کو کوئی درمیانی راہ نکالنے کے لیے کہا۔
اس دوران متحدہ مجلس عمل اور (اے آر ڈی) کی جانب سے میر ظفر اللہ خان جمالی کی حمایت میں بیان آنے لگے۔
یہ وہ صورت حال تھی جس نے صدر کو برہم کر دیا جس کے بعد ظفر اللہ جمالی پر استعفیٰ کے لیے دباؤ بڑھ گیا اور وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

کل بروز بدھ 2 دسمبر 2020ء کو میر ظفراللہ خان جمالی راولپنڈی میں وفات پائے گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.